1
اگر بیوی و شوہر ایک دوسرے کو نہ چاہتے ہوں اور بیوی شوہر کو کچھ مال دیدے تاکہ وہ اسے طلاق دے تو اس طلاق کو مبارات کہتے ہیں۔
|
2
اگر شوہر صیغہ مبارات پڑھنا چاہے تو اگر عورت کا نام فاطمہ ہے تو اسے کہنا چاہیے: بارات زوجتی فاطمۃ علی مہرھا فہی طالق ‘‘ یعنی میں نے اپنی بیوی فاطمہ سے مبارات کی ہے اس کے مہر کے مقابلہ میں پس وہ آزاد ہے۔ اور اگر کسی دوسرے کو وکیل بنائے تو وکیل کو کہنا چاہیے: بارات زوجہ موکلی فاطمہ علی مہرھا فہی طالق اور دونوں صورتوں میں ’’ علی مہرھا‘‘ کی جگہ بمہرھا کہہ دے تو بھی کوئی اشکال نہیں۔
|
3
خلع و مبارات کا صیغہ عربی صحیح میں پڑھا جائے البتہ اگر عورت اپنا مال شوہر کو بخشنے کے لئے مثلاً اردو زبان میں کہہ دے کہ طلاق کے لئے فلاں مال میں نے تجھے بخش دیا ہے تو اس میں کوئی اشکال نہیں۔
|
4
اگر عورت طلاق خلع یا مبارات کی عدت کے دوران اپنی بخشش سے پھر جائے تو شوہر بھی رجوع کرسکتا ہے اور بغیر عقد کے دوبارہ اسے اپنی بیوی قرار دے سکتا ہے۔
|
5
جو مال شوہر طلاق مبارات کے لئے لیتا ہے وہ حق مہر سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے البتہ اگر طلاق خلع میں زیادہ ہو تو اس میں کوئی اشکال نہیں۔
|