• صارفین کی تعداد :
  • 2962
  • 2/6/2011
  • تاريخ :

حضرت علی اور ایک بیوہ خاتون کی مدد

حضرت علی علیہ السلام

ایک دن حضرت علی علیہ السلام نے دیکھا کہ ایک عورت اپنے کاندھے پرپانی کی مشک اٹھائے ہوئے لے جا رہی ہے ۔ آپ نے اس عورت سے مشک لے لی اورمشک اس کے گھر پہنچا دی  پانی کی مشک منزل تک پہنچانے کے بعد آپ نے اس کی خیریت بھی دریافت کی ۔

عورت نے کہا : علی ابن ابیطالب نے میرے شوہر کو کہيں کام سے بھیجا تھا جہاں وہ مارڈالے گئے اب میں ان یتیم بچوں کی پرورش کر رہی ہوں اگرچہ ان کی سرپرستی اور پرورش میرے بس سے باہر ہے حالات سے مجبور ہوکر لوگوں کے گھروں میں جاکر خدمت کرتی ہوں ۔

علی علیہ السلام یہ سن کر اپنے گھر واپس آ گئے اور پوری رات آپ نہيں سوئے اگلی صبح آپ نے ایک ٹوکری میں کھانے کی اشیاء بھری  اور اس عورت کے گھر کی طرف روانہ ہوگئے ، راستے میں کچھ لوگوں نے حضرت علی علیہ السلام سے درخواست کی کہ کھانے کی چیزوں  سے بھری ہوئي ٹوکری وہ انھیں دے دیں وہ پہنچادیں گے

مگرحضرت علی یہ فرماتے جاتے تھے :

قیامت کے دن میرے اعمال کا بوجھ کون اٹھائے گا ؟

اس عورت کے گھرکے دروازے پرپہنچے دق الباب کیا ۔ عورت نے پوچھا کون ؟

حضرت نے جواب دیا :

جس نے کل تمہاری مدد کی تھی اور پانی کی مشک تمہارے گھر تک پہنچائي تھی، تمہارے بچوں کے لئے کھانا لایا ہوں ، دروازہ کھولو!

عورت نے دروازہ کھولا اورکہا :

خداوند عالم آپ کو جزائے خیر دے اور میرے اور علی کے درمیان خود فیصلہ کرے ۔

حضرت علی علیہ السلام اس کے گھرمیں داخل ہوئے اور عورت سے فرمایا :

روٹی پکاؤگی یا بچوں کی نگہداشت کروگي ؟

عورت نے کہا : میں روٹی پکانے میں زیادہ ماہرہوں آپ میرے بچوں کودیکھ لیجئے !

عورت نے آٹا گوندھا ۔ علی علیہ السلام جو گوشت لے کرآئے تھے اس کوبھون رہے تھے اورساتھ ہی ساتھ خرمے بھی بچوں کوکھلاتے جا رہے تھے

آپ پدرانہ شفقت کے ساتھ کجھور، بچوں کے منہ میں رکھتے جارہے تھے اورہربار یہی فرماتے جا رہے تھے :

میرے بچو: اگرعلی نے تمہارے حق میں کوئي کوتاہی کی ہے تو اسے معاف کر دو ۔

جب آٹا تیار ہوگیا تو حضرت علی علیہ السلام نے تنور روشن کیا  تنور روشن کرتے جا رہے تھے اور اپنا چہرہ مبارک تنورکی آگ کے قریب بار بار لےکر فرماتے :

اے علی ! آگ کا مزہ چکھو ! یہ اس شخص کی سزا ہے جو یتیموں اور بیواؤں سے بے خبر رہے ۔ اچانک ایک اورعورت جو حضرت  علی علیہ السلام کوپہچانتی تھی اس گھرميں داخل ہوئي ۔

اس نے جیسے ہی آپ کو دیکھا تیزی کے ساتھ گھر کی عورت کے پاس دوڑتی ہوئي گئي اورکہا:

وائے ہوتجھ پر ! یہ مسلمانوں کے پیشوا اور ملک کےحاکم علی علیہ السلام ہيں ۔

بیوہ عورت جو اپنے کہے پرنادم تھی کہنے لگی :

اے امیرالمومنین ! میں آپ سے بہت شرمندہ ہوں ، مجھے معاف کردیجئے !

حضرت نے فرمایا : نہیں بلکہ میں تم سے شرمندہ ہوں کہ میں نے تمہارے اورتمہارے بچوں کے حق میں کوتاہی کی ۔

بشکریہ اردو ریڈیو تہران


متعلقہ تحریریں:

علي عليہ السلام کي متوازي شخصيت (حصّہ دوّم)

علي عليہ السلام کي متوازي شخصيت

ولادت علی (ع) کے سلسلہ میں علماء، مؤرخین و محدثین اہل سنت کا نظریہ ( حصّہ دوّم)

ولادت علی (ع) کے سلسلہ میں علماء، مؤرخین و محدثین اہل سنت کا نظریہ

مولد امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب (ع)